میاں بیوی کا تعلق ایک ایسا تعلق ہے کہ ایجاب و قبول (نکاح) کے بعد سے جب تک ساتھ رہینگے۔ ایجاب و قبول کے بعد دونوں آپس میں دل لگی کی باتیں، ایجاب و قبول کے بعد جنسی تسکین کا عمل وغیرہ ان تمام اعمال پر ثواب لکھا جاتا ہے گویا کہ ازدواجی زندگی شریعت کے اصولوں پر چلائی جائے تو دنیاوی سکون تو حاصل ہوگا ہی ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی سنور جائے گی پھر ان شاء اللہ جنت میں بھی دونوں کو ساتھ عیش و عشرت کے محلات میں لافانی زندگی، لامحدود زندگی عیش و عشرت کے ساتھ گزارنی ہوگی اور جنت میں مرد کے لئے جو حوریں اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا ان سب کی ملکہ (رانی) اِس دنیا کی بیوی ہوا کرے گی۔
جب یہ تصوّر ذہن میں رہے گا تو ازدواجی زندگی میں دونوں کے مابین پیش انے والی چھوٹی چھوٹی لغزشیں, کوتاہیوں پر صبر کرنا آسان ہوگا, اس لئے اس کا ذہن جنت کی عیش و عشرت والی لامحدود زندگی کے شوق میں دنیا کی بڑی سے بڑی تکالیف معمولی محسوس ہوگی…!!
شوہر سے اگر بیوی کے تعلق سے زیادتی ہو, ناانصافی ہو, چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی بیوی کو تنگ کرے تو اس کو اپنے شوہر کی لاعلمی, جہالت پر محمول کرتے ہوئے مکمل صبر سے کام لیا جائے, جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو تو ماضی کی غلطیوں کو بھول کر اپنے شوہر سے ایسا سلوک کیا جائے گویا کہ اس سے پہلے دونوں کے مابین کچھ تلخی ہوئی ہی نہیں….
اگر شوہر غیر شرعی عمل کا ارتکاب کرے مثلا اپنی بیوی سے گالی گلوچ سے پیش ائے, سب کے سامنے ذلیل کرے تو ایسے موقع پر بھی بیوی مکمل صبر سے کام لے, شوہر کے نارمل مزاج کے وقت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باتوں کی یاد دہانی کرائے, بیوی کے ساتھ زیادتی ناانصافی کرنے پر اللہ کی طرف سے جو سخت وعیدیں سنائی گئی ہے اس کو بطور یاد دہانی یاد دلائی جائے, قبر کے احوال سنائے جائے, جنت کی لامحدود زندگی کے متعلق اس کے عیش و عشرت کے متعلق سنایا جائے.
ایسے ہی اگر بیوی کا رویہ اپنے شوہر کے ساتھ غیر منصفانہ ہو, جاہلانہ ہو, بات بات پر اپنے شوہر کی غلطیوں, کوتاہیوں کو اس کے منھ پر بیان کر کے اس کو حقیر کیا جائے, اس کی کی ہوئی دیگر اچھائیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بھی شوہر کو صبر کے ساتھ اس وقت کا انتظار کرنا ہوگا جب بیوی نارمل مزاج ہو جائے تب اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی ہوئی بشارتیں, خاوند کے حقوق, خاوند کی نافرمانی پر سخت وعیدیں بیوی کے گوش گزار کی جائے۔
ازدواجی زندگی کے خراب ہونے کا سب سے پہلا سبب تیسرے فرد کا میاں بیوی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ہے, چاہے وہ تیسرا فرد شوہر کا بھائی ہو, بہن ہو یا اس کے رشتہ دار,
اسی طرح بیوی کا بھائی, بہن, رشتہ دار کی طرف سے بھی میاں بیوی کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کی جائے یہ تمام غیر شرعی عمل ہے. اسی لئے بیوی کو اپنے شوہر کے گھر ہونے والی کسی بات کو جس سے دونوں خاندانوں کے مابین دشمنی و عداوت کا سبب بنے میکے جا کر اپنے والدین سے بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
جب میاں بیوی اپنے اپنے حقوق شریعت کے دائرے میں رہ کر سمجھے تو نا اتفاقی کا پیدا ہونا دشوار ہے۔
اور جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر دنوں کے مابین تکرار ہو جائے تب رشتے اگے بڑھنا محال ہو جاتا ہے اور اس موقع پر صبر سے کام لے تو یہ تلخی اگے چل کر سکون میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
مفہوم حدیث :
اگر بیوی اپنے شوہر سے بدسلوکی کرے، اس پر ظلم کرے تو جنت میں موجود حور دنیاوی بیوی پر غصہ کرتے ہوئے کہتی ہے اپنے شوہر سے اچھا سلوک کر ،جنت میں وہ میرے ساتھ ہی رہیگا۔
مفہوم حدیث :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں خاص کر کے اس بات کی سختی سے تاکید فرمائی کہ اپنے عورتوں سے اچھا سلوک کرنا، ان کے تعلق سے اپنے اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ۔ ۔
“او کما قال النبی الرحمہ”